بیٹیاں تھیں جنازہ تھا احساس تھا دور بابا کی میت سے عباسؑ تھا وقتِ رُخصت کفن جب ہٹایا گیا آخری بار چہرا دکھایا گیا اپنے عباسؑ کا جب خیال آگیا دیکے آواز شبیرؑ نے یہ کہا آؤ بابا کو رخصت کرو آج بازو بھی ہیں اور جنازہ بھی ہے جب سے بابا نے چومے ہیں بازو تیرے کربلا یاد آتی ہے بھائی مجھے ایک زخمی بدن ہوگا جب بےکفن کون آئیگا بھائی اُٹھانے اُسے آج سب ہیں چلو تم مرا ساتھ دو دور بیٹھو نہ اب میرے غازی اُٹھو جانتا ہوں بہت صبر تم نے کیا اپنے بابا کہ قاتل کو پانی دیا زخم گہرا ہے اب بھی شکستہ ہےسر اُسنے تلوار سے وار ایسا کیا ضرب کے زخم سے خون پھر نا بہے دیکھو میت رکھی ہے بہت دیر سے جیسے اماں نے مجھکو بلایا سنو تم بھی بابا کو اکبار آواز دو ماں کیطرح سے بندِ کفن توڑ کر اپنے سینے سے تمکو لگالینگے وہ اُنکا احساس ہو تم تو عباسؑ ہو میرے بابا کے دل کے بہت پاس ہو بس یہ ارمان ہوتا ہر باپ کا میرے بیٹے اُٹھائیں جنازہ مرا کہکے یہ بات شبیرؑ رونے لگے اور پھر ہاتھ سینے پہ رکھ کر کہا ایسا نا ہو کبھی باپ اُٹھائے کوئی اپنے کاندھے پہ میت جواں لال کی یاد ہے تمکو بابا نے جاتے ہوئے ہاتھ رکھا تمہارا مرے ہاتھ پہ تمکو شب کی نمازوں میں مانگا گیا اے مرے بھائی کربوبلا کیلئے کیا یہ صدمہ ہے کم ہیں یتیم آج ہم ہائے آغازِ کربوبلا ہے یہ غم تھام کر اپنی ٹوٹی ہوئی پسلیاں دیکھوبابا کےپہلو میں بیٹھی ہیں ماں ہائے غربت وہی ہاتھ پہلو پہ ہے تازیانوں کہ جس پہ ہیں اب بھی نشاں دیکھو اے باوفا ساتھ ہیں مصطفٰی چل کے بابا کو اب بول دو الوداع دیکھو بابا کی میت سے لپٹی ہے وہ تم ہی زینبؑ کے جینے کی اُمید ہو بھائی شبرؑ نے رُخ سے ہٹایا تھا جو اپنے ہاتھوں سے تم وہ کفن باندھ دو عکسِ خیبر شکن مر نہ جائے بہن تمکو دیکھے گی تو چھوڑدے گی کفن بات بہنوں کی آئی تو غازیؑ اُٹھے اپنے بابا کی میت کی جانب چلے آکے بابا قدموں کا بوسہ لیا اے رضا حال ذیشان کیسے لکھے جب جنازہ اُٹھا گھر میں کہرام تھا روکے عباسؑ نے بھائیوں سے کہا