‎عباسؑ کے بابا کی جبیں خون سے تر ہے ‎ڈوبا ہوا غم میں بنی ہاشم کا قمر ہے ‎ عباسؑ کے چہرے پہ ہیں زینبؑ کی نگاہیں ‎یہ پوچھتی ہو جیسے مرا بابا کدھرہےہ ‎آ پہنچی ہے زہراؑ کی شہادت بھی علیؑ تک ‎ کوفے پہ بھی لگتا ہے مدینے کا اثر ہے ‎کل بیٹی پہ برسیں گے انہی گلیوں میں پتھر ‎جن گلیوں سے بابا کے جنازے کا گزر ہے ‎کس طرح سے اب جینا ہے یہ پوچھ لو زینبؑ ‎کوفے کے یتیموں کو یتیمی کی خبر ہے ‎پھیلا ہوا معبود ہی کا خون ہے اکبر ‎جس خون سے رنگیں ہوا معبود کا گھر ہے