علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا گنگنا کے غدیری ترانہ پورا کلمہ سنانا پڑے گا ہمسری کر رہا ہے علیؑ سے، ٹھیک ہے ہم بھی مانیں گے لیکن شیخ تجھ کو بھی دو انگلیوں سے بابِ خیبر اٹھانا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا کہہ کے مرحب سے یہ تیغ حیدرؑ لے کے انگڑائی گردن پہ بیٹھی تو بہت اڑ رہا ہے ہوا میں، تیرے سر کو اڑانا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا موت جینے کی دے گی دعائیں زندگی ناز اٹھائے گی لیکن بغض حیدرؑ کے موذی مرض سے اپنے دل کو بچانا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا یاد رکھ مرتضیؑ کے مخالف تو تو کیا تیرے باپ کو بھی جائے پیدائش مرتضیؑ پہ اپنے سر کو جھکانا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا یا حسینؑ اپنے سینے پہ لکھو، یا علیؑ لکھ لو اپنے لبوں پر پھر فشار لحد بھی نہ ہو گا اور نہ شجرہ بتانا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا گھر کو جنت نما ہے بنانا انبیاءؑ کو اگر ہے بلانا اے مسلماں تجھے اپنے گھر میں جشن حیدرؑ منانا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا باغ جنت میں جانا تو کوئی، مسئلہ ہی نہیں میرے بھائی ہاں مگر در پہ رضواں کو پہلے، نقش ماتم دکھنا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا نُورِ عشقِ علیؑ دِل میں بھر کے خاکِ کرب و بلا سے سنور کے باغِ جنّت میں فرحان و گوہر کربلا ہوکے جانا پڑے گا گر ہے جنت میں جانے کی خواہش بزم حیدرؑ میں آنا پڑے گا علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ علیؑ