شہید ِمسجد ِ کوفہ حسین کا بابا قتیل ِغربت ِزہرا حسین کا بابا اسے تو مار دیا تھا مدینے والوں نے ہوا ہے قتل دوبارہ حسین کا بابا ردائیں مانگتی زینب جہاں سے گزرے گی ہر اُس گلی میں ہے رویا حسین کا بابا وہ غم سناتا تھا قبر ِبتول کو اپنے تھا سوچو کتنا اکیلا حسین کا بابا خوشی قبول کہاں تھی اُسے بتول کے بعد بروز عید بھی رویا حسین کا بابا کبھی فلک کبھی غازی کو دیکھا زینب نے لہو میں ڈوبا جو آیا حسین کا بابا اسی کے سامنے زہرا طمانچے کھاتی رہی غریب ہوگیا اتنا حسین کا بابا پکارا آخری لمحوں میں شکریہ فضہ ہے قرض دار تمھارا حسین کا بابا رخ بتول پہ محسن تھے انگلیوں کے نشان یہ غم بھلا نہیں سکتا حسین کا باب