مقتل کی زمیں اور قیامت کا وہ منظر تھے گود میں شبیر کی زخمی علی اکبر بیٹے کی طرف دیکھ کے جب یا علی ع کہ کر اک ہاتھ رکھا سینے پہ اک ہاتھ سناں پر سینے سے سناں کھینچ کے کہنے لگے سرورؑ کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ کیا تم سےکہوں کسطرح پہنچا ہوں سرہانے میں گھٹنیوں چلکر تمہیں آیا ہوں اُٹھانے آنکھیں نہ کرو بند میرے لعل چلو گھر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ تکلیف ہے سینے میں یہ احساس ہے ہمکو محسوس کرو تم بھی تو اس باپ کے غم کو مرجاؤنگا یوں ایڑیاں رگڑو نہ زمیں پر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ اس حال میں گر سامنے بیٹا ترا ہوتا زخموں کیطرف دیکھ کے کیا تو نہیں روتا دو حوصلہ سینے سے لگالوں مجھے اُٹھکر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ چہرے پہ نقاب اسلئے رہتا تھا تمہارے اللہ نظر نا لگے اکبرؑ کو ہمارے پھر کسکی نظر کھاگئی ہمشکل پیمبر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ کیوں باپ کی آغوش میں دم توڑ رہے ہو غربت میں اکیلا ہمیں تم چھوڑ رہے ہو کیوں ہچکیاں لیتے ہو مرے سامنے دلبر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ ظالم نے سناں مارکے جب زیں سے گرایا ہاتھوں سے جگر تھام کے تو خاک پہ آیا چہرے پہ ترے خون ہے زخمی ہے ترا سر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ کچھ دیر میں لے آئیگا قاصد خطِ صغراؑ ہم سے نہ پڑھا جائیگا تم بھی نہ تڑپنا جسوقت پکارونگا میں خط سینے پہ رکھکر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ اکبرؑ نے جب آغوش میں لی آخری ہچکی ذیشان و رضا خیمے سے زینبؑ نے صدا دی مرجائینگے شبیرؑ تری لاش اُٹھاکر کیا باپ سے اسطرح جدا ہوتے ہیں اکبرؑ