سیدہ طاہرہ ہئے ماں زہرا حسن حسین کی زخمی غریب ماں زہرا تماچے کھاتی ہےبیٹوں کے درمیاں زہرا کمر کے ساتھ شکستہ ہوئے ہیں بازو بھی تمھاری ٹوٹی نہیں صرف پسلیاں زہرا جو سانس لیتی ہے پہلو میں درد بھڑتا ہے کہ اب تو لے بھی نہیں سکتی سسکیاں زہرا تماچہ مارا ہے ظالم نے اس طرح تم کو زمیں پہ ٹوٹ کے بکھری ہے بالیاں زہرا حسن ہی جانے کہ مسجد سے گھر تک آتے ہوئے تماچے کھا کے گری ہے کہاں کہاں زہرا چھپائے کیسے علی کی نگاہ سے فضہ تیرے لہو سے بھرا ہے تیرا مکاں زہرا کچھ اور بھڑ تی ہے دشواری سانس لینے میں کہیں جو سنتی ہے بچوں کی سسکیاں زہرا علی سے پوچھ رہے ہیں حسین روتے ہوئے کیا تازیانے کے قابل ہے میری ماں زہرا کوئی سلام کا دیتا نہیں جواب اُسے ہے تنہا فاتحِ خیبر کی قدر داں زہرا بچا کے لائی ہے خنجر تلے سے اپنا امام بڑی امیر تھی زینب تمھاری ماں زہرا حسین تڑپے تکلمؔ نا کیوں تہے خنجر تمھارے ہاتھ پہ دُرّوں کے تھے نشاں زہرا