مارا گیا دریا پہ جو شداۓ سکینہ شہرگ سے صدا آتی رہی ھاۓ سکینہ لاشے سے سدا آتی تھی ہم بھی نہ پینگے جب تک تمھیں پانی نہیں مل جائے سکینہ ہائے سکینہ ہائے سکینہ کس طرح سے دکھلاؤں تمھیں شکل دوبارہ جب پانی ہی مشکیزے سے بھ جاے سکینہ ہائے سکینہ ہائے سکینہ مجبور ہے بازو بھی نہیں تم ہی بتاؤ کس طرح سے امو تمھیں بہلاے سکینہ ہائے سکینہ ہائے سکینہ زینب نے کہا زیر علم پیٹ کے سر کو ماتم کرو مارا گیا سقاۓ سکینہ ہائے سکینہ ہائے سکینہ آجائیے یوں زوجاۓ عباس پکاری والی کہیں فرقت میں نہ مرجائے سکینہ ہائے سکینہ ہائے سکینہ سب چاہنے والے تو انیس ہو گئے مقدود رخسار کے نیل اب کیسے دکھلاۓ سکینہ ہائے سکینہ ہائے سکینہ