پیاسے گلے پہ بھائی کے چلتی رہی چھری ستّر قدم سے پیاسی بہن دیکھتی رہی کہتی تھی کیا اسی لئے پیسی تھی چکیاں؟ چادر سے صاف کرتی تھی زخموں کو رو کے ماں زخمی سرِ حسین تھا زہرا کی گود تھی روکے ہوئے تھے پیار میں خنجر کی دھار کو بیٹے سے کتنا پیار تھا دلدل سوار کو رکھے ہوئے تھے شہہ کے گلے پر گلا علی خنجر سے شہہ کی زلفیں ہٹانے لگا لعیں داڑھی کی سمت ہاتھ بڑھانے لگا لعیں آنکھوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے تھا ہر اک نبی مقتل میں چار سال کی زہرا کو گود میں اک بار پھر اٹھا لے سکینہ کو گود میں افسوس قاتلوں سے اجازت نہیں ملی چہرہ وطن کی سمت وہ کرتا تھا بار بار آنکھوں میں تھا بھرا ہوا صغرا کا انتظار ہائے غریبِ زہرا کی آنکھیں کھلی ہوئی کہتا تھا وہ اشاروں میں زینب سے جاؤ گھر آنکھوں کو بند کرلو کہ کٹ جائے میرا سر سینے پہ شہہ کے زانو تھا رکھے ہوئے شقی لاشہ فرات پر کبھی اٹھا کبھی گرا کرب و بلا میں حشر تکلم بپا ہوا عباس تم کہاں ہو صدا جب یہ شہہ نے دی