شمر کہتا تھا مت سنو مختار میں کیسے حسین کو مارا جب ہوا میں سوار سینے پر لب ہلانے لگا ترا مولا میں یہ سمجھا کہ بد دعائیں مجھے اب تو مظلوم دے رہا ہوگا میں نے ہونٹوں پہ کان رکھ کر سنا وہ تو غازی کو دے رہا تھا صدا کیسی غربت تھی ابنِ زہرا دیکھتی تھی سکینہ یہ منظر میرے ہاتھوں میں شہہ کی داڑھی تھی میں رلاتا رہا اسے ہنسکر لاشِ عباس بھی تڑپنے لگی جب تمانچہ حسین کو مارا اسکی آنکھوں میں جانے کیا تھا امیر کوئی نظریں نہیں ملاتا تھا میں بھی آنکھیں نہ اسکی دیکھ سکا اس لیے چہرہ اسکا پھیر دیا یہ وجہ تھی جو پشتِ گردن سے تیرے مولا کو ذبح میں نے کیا وہ جو اک نہر ہے وہاں جاری تیرا مولا وہاں تھا زیں سے گرا عمر سعد نے کہا مجھ سے قتل اسکو نشیب میں کرنا میں یہاں قتل گاہ تک مختار اسکو ذلفوں سے کھنچ کر لایا ہاں وہ لمحہ عجیب تھا مختار میرے ہاتھوں میں تیز تھی تلوار کند ہوجاتا تھا مرا خنجر میں نے یوں بھی میں نے کیے تھے تیرہ وار مجھ سے کٹتا نہ تھا گلا اسکا اسکی ماں نے تھا ہاتھ رکھا ہوا ایک ٹیلہ ہے کربلا میں جہاں رو رہی تھی بہن کھڑی اسکی ‎منتیں کر رہی تھی ہر اک کی کہہ رہی تھی نہیں چلاو چھری ‎اس نے ستر قدم سے کٹتے ہوئے اپنے بھائی کو خود گلا دیکھا اس نے جب دیکھا آ گئی زینب مجھ سے شبیر رو کے کہنے لگا شمر جانے دے اُسکو خیمے میں اپنا خنجر چھپالے اس سے زرا شمر زانو ہٹا لے سینے سے واسطہ ہے تجھے محمد کا میر سجاد سن کے اس کے ستم سارے درباری بین کرنے لگے بولا شمر لعین اے مختار کچھ دکھاوں اگر اجازت دے جس پہ خوں تھا غریب زہرا کا اس نے خنجر وہ سب کو دکھلایا